حُلیہ کیا بتاؤں میں اپنے جناب کا
بس اتنا سمجھ لو جیسے پھول ہو گلاب کا
توڑ کے دل ہمارا وہ یوں چل دیئے
جیسے کیا ہو کوئی کام ثواب کا
اس کی یاد کے نشے سے جو ملتا ہے
وہ مزہ کہاں ہے شراب کا
گلے، شکوے، شکایت سب کریں گے
ایک دن جو مقرر ہے حساب کا
دل کی بات ہم تو بتا چکے اسے
بس انتظار ہے اب اسکے جواب کا