خبر کیا تھی یوں بھی ملاقات ہو گی
بن کر اجنبی ہماری پہچان ہو گی
پہروں جس سے بات ہوتی تھی
آج ذرا سی بات کے لیئے
الفاظ کی تلاش ہو گی
سامنے بیٹھ کر بھی وہ
مجھ سے دور ہو گا
دیکھنے کے لیئے بھی اس کو
کسی بہانے کی تلاش ہو گی
کیا معلوم تھا یوں بھی ہو گا
زندگی تھی کل تک جس کے ساتھ حسین تر
آج اس کے بغیر ویران ہو گی
تھا کبھی جس پر اختیار میرا
آج اس کی حق دار کوئی اور ہو گی