نجانے کس وجہ کے کارن وہ یار خفا ہوا
اب تک نہین معلوم کہ وہ کیونکر ھے روٹھا ہوا
سوچا کچھ نہ سمجھا بس تہمت لگا دی
یہ انگلی اٹھانے کا رواج وان سے روا ہوا
ڈوبتے ھیں ڈوبنے والے بچانے کو آئے کوئی
بنتا ھے نا خدا گر تو کیوں ھے چھپا ہوا ؟
دل کو بھی یار اس سے امید تھی کچھ زیادہ
گر اس نے ھے رخ پھیرا تو کیوں کہیں دھوکا ہوا
مرتے ھیں غم کے مارے پرسش کو آؤ کوئی
دو تسلی دل بے اطمنان کو کہ ھے افسردہ بیٹھا ہوا
ؤاعظ !!! ھمکو کیا معلوم پختگی ایمان کی اپنے
کرتے ھیں ریاعی سجدے اور کہتے سچا ہوا
یہ اسد نام کے تیرے پڑھتا ھے یار قصیدے
اور پھر بھی تو خفا ھے خدا جانے ایسا کیا ہوا ؟؟