خدا پر تیرا ایقاں اب کہاں ہے
ترے سینے میں ایماں اب کہاں ہے
جسے تھا اک خدا ہی پر بھروسہ
اے یارو وہ مسلماں اب کہاں ہے
کھڑا ہے در پہ ہر اک کے سوالی
تری غیرت کا ساماں اب کہاں ہے
جہاں پر پھول تھے اور تتلیاں تھیں
وہ گلشن وہ گلستاں اب کہاں ہے
جہاں مجنوں بھی رہتا تھا مزے سے
وہ صحرا وہ بیاباں اب کہاں ہے
جہاں پرسویا کرتے تھےسکوں سے
اے لوگو وہ شبستاں اب کہاں ہے
جہاں چوری کا تھا کھٹکا نہ کوئی
وہ خوابوں کا خیاباں اب کہاں ہے
جیو گے کب تلک اس کے سہارے
ترا ماضی درخشاں اب کہاں ہے
تُو کب تک اس کو دہراتا رہےگا
ترا کردارِ ذی شاں اب کہاں ہے
مسلسل ظلم کی یلغار سہتے
یہاں جینے کا ارماں اب کہاں ہے
ادھر تو درد بڑھتا جا رہا ہے
یہاں پر لوگ مرتے جا رہے ہیں
ترے اندر کا انساں اب کہاں ہے
دلوں کے آئینے ٹوٹے پڑے ہیں
مرا ساقی نگہباں اب کہاں ہے
کیا کرتا تھا جو تعریف تیری
وہ شاعر وہ غزل خواں اب کہاں ہے
کوئی بھی پیار کا نغمہ نہ گائے
مرا سازِ رگِ جاں اب کہاں ہے
دلوں میں آرزو باقی نہیں ہے
پلٹ آنے کا اِمکاں اب کہاں ہے
جسے تم ڈھونڈنے نکلے ہو یارو
و سیم احمد پریشاں اب کہاں ہے