خوابیدہ آرزوؤں کو بیدار کر دیا
یادوں نے کیسا دشت کو گلزار کردیا
چہکا تھا اک گلاب سرِ شاخسارِ دل
ہر جذبہ جس نے زمزمہ آثار کر دیا
ہر آرزو کے پاؤں میں پایل چھنک گئی
سارے بدن کو گونجتی جھنکار کر دیا
لگتا تھا جیسے جھوم رہی ہو فضا تمام
کچھ ایسا قربِ یار نے سرشار کر دیا
اب خود کلامیوں کی بھی فرصت نہیں رہی
کیسا ہجومِ کار نے بیکار کر دیا
جب سے گیا ہے آنکھ سے اک سیم تن کا خواب
ارزانیِ خیال نے نادار کردیا
گھر سے چلے تو ہم بھی بڑے کج کلاہ تھے
راہوں کے پیچ و تاب نے ہموار کر دیا