مجبور کردیا اب کے ہنسایا جائے مُجھے
خوابیدہ ہے زندگی میری مار دیا جائے مُجھے
اب کے اتنا ظلم نہ کر مجھ پر ظالم نظریں
نظر کو نظر انداز کرکے بچایا جائے مُجھے
وہ کون تھے کہاں سے آئی کیا پتہ کیسے کو
زُلفیں اسکے مراسم سے بھاگی جائے مُجھے
پل بھر میں جو کچھ تھا اب نہ رہا کچھ
جو کچھ میرا تھا جلد لوٹایا جائے مُجھے
میں رات دِن دیکھتا رہتا تھا خوابوں میں
اب کے خوابی گلستاں سے نکلا جائے مُجھے
پہلے معیت سجائے گئے میری اس شہر میں
اب تو پھول بیچائے اور جلد دفنایا جائے مُجھے
کیا بات ہے بھوت دیر ہوگئے فرشتے نہیں اے
خُدا کے بندوں اب تو خدا سے ملا یا جائے مُجھے