ہر تعلق میں محبت کو نبھائے اپنے
خود کو سمجھے تھے نئے لوگ پرائے اپنے...
بادہ ء عشق بلا خیز جوانی میں پیا
دل کم سن پہ ہی ہم زخم لگائے اپنے
معتبر گو کہ نہ تھے رکھتے تھے توقیر ذرا
آج رسوائی ہے الفت وہ بتائے اپنے
ایک دنیا کو ہے مٹتا ہوا دیکھا ہم نے
ہم تری راہ میں جب خود کو مٹائے اپنے
اتنے دُکھ ہیں کہ ہنسی ہو گئی جنسِ نایاب ۔
غور سے دیکھا تو بس چند ہی بھائے اپنے
درد کو دیکھ کے بولی نہ لگا دے دنیا
خوف سے زخمِ جگر وشمہ تو دھوئے اپنے