پھر تیرے غم ہیں کہ ستانے چلے ھیں
دل کو خون کے آنسو رلانے چلے ھیں
آہ!!! کتنے چالاک ہیں تیرے شہر والے
کہ تیرا بدلا ھم سے چکانے چلے ھیں
اچھا ھم گزرے تھے آہ ! گلی سے تیرے
کہ خون مین اپنے تر! تر نہانے چلے ھیں
اس دل پر دانستہ کوئی دباؤ نہ ڈالو
کہ ھم پہلے سے ھی گھبرانے چلے ھیں
چلو جلد پہنچو یار در پر ان کے
کہ سنا ھے وہ محبتیں اپنی لٹانے چلے ھیں
گئے گزرے دنوں سے بھلا ھم کو کیا لینا۔؟
اسد کیوں دور ماضی اب دھرانے چلے ھیں