خیال الجھ کر رہ گئے قضاؤں کی ضد میں
جیسے خزاں کے پتے تھے فضاؤں کی ضد میں
وہ آن و انداز مسافر چلتے چلتے رک گیا
شاید ایمان آگیا ہے نگاہوں کی ضد میں
جو لکیروں میں نہیں وہ تقدیروں میں کہاں
پھر بھی ہاتھ رہے یوں دعاؤں کی ضد میں
ان اندھیروں کو روشنائی کا بھی کیا پتہ
وہ ستارہ سمٹ گیا آج رداؤں کی ضد میں
آؤ کہ کبھی اس دیئے کا مقدر دیکھیں
کسی نے جلا کے رکھدیا ہواؤں کی ضد میں
ہماری خطا بھی یہ کہ خطا ہوگئی سنتوش
انجانے میں دل آگیا خطاؤں کی ضد میں