دردِ تنہائی نے صدیوں سے جگا رکھا ہے
خانہءِ دل میں فقط اس کو بسا رکھا ہے
اس نے جانا نہ میرے عشق کے پیمانے کو
دیکھا اس نے نہ کبھی جو میں نے عیاں رکھا ہے
شہر میں لوگ میرے حال پہ ہستے کیوں ہیں؟
میں نے آنسوں کو تو خود سے بھی چھپا رکھا ہے
لڑکھڑاتی ہوئی سانسوں نے دہائی دی ہے
میری سانسوں نے تجھے مجھ میں بسا رکھا ہے
بازیءِ عشق میں جیتا بھی تو کیسے احسن
اس نے مرنے پہ میرے آنکھوں کو سجا رکھا ہے