اب دشتِ مضافات کا دھارا نہیں ہوتا
دریا کا کنارے سے کنارہ نہیں ہوتا
اس دل میں چھپا کیا ہے مری آنکھ میں پڑھ لے
ہونٹوں پہ تبسم کا شرارہ نہیں ہوتا
میں نے تو محبت میں کئی نفل پڑھے ہیں
اندازِ وفا دیکھ تمہارا نہیں ہوتا
مجھکو تو کسی جیت کی خواہش بھی نہیں تھی
تو عشق مگر جیت کے ہارا نہیں ہوتا
پلکوں پہ ہیں آباد مرے خواب جذیرے
اور ہاتھ میں قسمت کا ستارہ نہیں ہوتا
غرقاب جزیرہ ہوا ساحل پہ میں ابھری
تقدیر کا ساحل پہ خسارہ نہیں ہوتا
میں دوڑتی آئی ہوں کہیں دور سے وشمہ
اِس بار مجھے اُس نے پکارا نہیں ہوتا