اخلاص ہے کیا چیز زمانے کو بتا کر
دریا کبھی آنکھوں سے محبت کا بہا کر
اب صبح کی بانہوں میں انہیں ڈھونڈ رہی ہوں
کچھ خواب جو آنکھوں میں ہی رکھے تھے سجا کر
یادوں کے تعاقب میں گزاری ہیں یہ صدیاں
ملا کچھ بھی نہیں دیکھو ہمیں جان گنوا کر
اس رات کی آغوش میں چمکیں گے نہ تارے
اب دید کی کرنوں سے تو ہر سمت ضیا کر
جب آنکھ کی تحویل میں آنسو ہی نہیں ہیں
کیا لینا ہے پھر دردِ محبت کو بہا کر
چمکے ہیں مرے ساتھ بجھی شب کے ستارے
نکلوں جو کبھی چاند کی کرنوں سے نہا کر
وہ پیار کا پنچھی ہے پلٹ آئے گا وشمہ
تو عشق کی مسجد میں شب و روز دعا کر