کرتے ہیں میرے اپنے میرے زوال کی خواہش
اصرار ہے اُنکا ایسا جیسے بھال کی خواہش
زبان ترے نام کی دیوانی نظر منتظرِ صورت
ترا تصور جانِ جاں میرے خیال کی خواہش
نہ بدلے میری قسمت کے دھاگے رہے اُداس
دسمبر میں تھی بہت نئے سال کی خواہش
لوٹ آؤ تم اب کہ احساس اختیام پہ پہنچا
محبت کے مفلسوں کو ہے ملال کی خواہش
جو مانگا میں نے تجھے ، خدا نے کہا
مانگا میرا عظیم کرشمہ کی کمال کی خواہش
بچھڑتے وقت خاموش رہے لفظ زبان پہ رکھے
خواب لئے ہاتھ میں کی سوال کی خواہش
اِک تھی کومل پَری جسے رہتا تھا میرا انتظار
اُسکے بعد نہ کی کسو نہالؔ کی خواہش