دل برداشتہ تھے کہ کبھی فوقیت نہیں ملی
اچھا ہوا ایک غریب کو یہ غلاظت نہیں ملی
تحسین دیتے ہیں تیرے حسُن کو آج بھی
لیکن بدنصیب ہیں جنہیں تیری قربت نہیں ملی
چاہتوں میں بھٹکتے تو ناسوُر ہوگئے لوگ
بے حوصلوں کو کہنے کی بس ہمت نہیں ملی
روکھا چھوڑدیا اپنے قیاس کو بھی اتنا کہ
ایک بدنام شخص کو کوئی شہرت نہیں ملی
آج بھی ہم اپنے آپ سے مخفی رہتے ہیں
کون کہتا ہے ہمیں کوئی خلوت نہیں ملی
پوچھ بھی لیتے اپنی گمنامی کا قصہ سنتوش
مگر ہمیں خود لیئے کبھی فرصت نہیں ملی