آرزو ہے کہ سمیٹے وہ نیتاً مجھکو
جو ابھی سوچتا رہتا ہے عادتاً مجھکو
میں اگر کھو گیا تو پھر نہ ہاتھ آؤں گا
دیکھ دنیا میں نہ الجھا شرارتاً مجھکو
آج بھی راہ کے پتھر سے جو کھائی ٹھوکر
یاد آیا وہ ستمگر ہی دفعتاً مجھکو
خیر ہے وصل کی گھڑیاں بھی آ ہی جائیں گی
دل تو وہ دے ہی گیا ہے ارادتاً مجھکو
فیض ہے یہ بھی تمہارا کہ چھوڑ دیتا ہوں
کام لگتا ہے جو آسان نسبتاً مجھکو
اسکو معلوم ہے اندر کی کیفیت ساری
چھیڑ دیتا ہے یہ موسم بھی حجتاً مجھکو
ہائے اس شوخ مسیحا کی وسیع القلبی
چھوڑنے آیا وہ مقتل میں عزتاً مجھکو