پہلی نظر میں کچھ ایسا کمال تھا
شرابی نگاہوں میں چھپا اک سوال تھا
شام کا وہ حسیں پہر بھلا نہیں سکتا
دل کی امنگوں کو میں سُلا نہیں سکتا
نشیلی آنکھوں میں کچھ ایسا سحر تھا
اپنا اپنا لگا مگر اپنا تھا نہ وہ غیر تھا
شباب حسن کا مرقعہ دل میرا بھگا گیا
انگڑائیوں میں لطیف جزبات جگا گیا
آنکھوں کے رستے دل میں اترتا گیا
بھلانا چاہا تو دل کو بے چین کرتا گیا
خوابوں کی دنیا میں وہ بسا کچھ ایسے
جاوید کا دل جاگیر ہو اُس کی جیسے