کیوں یہ سب دل ناداں رکھتا ہے
تمنا اسی کی کیوں بار بار رکھتا ہے
اگر ٹوٹے تو کرچیاں تو چبھیں گی نہ
پلکوں تلے سپنے جو کانچدار رکھتا ہے
وہ سامنے جو ہوتا ہے تو مچل کیوں جاتا ہے
پھر تمنائیں ایسی ہزار رکھتا ہے
بھیچ منجھدار تڑمائیں گی یادیں اسی کی
پھر کیوں ہونٹوں پہ زکر یار رکھتا ہے
لوٹ جا وقاص کہ سفر تیرے بس کا نہیں
منزل ہے دور رستے بھی خار دار رکھتا ہے