دل ڈوب گیا سر رم جھم، پر اسے نہ قرار آیا
شب الفت پر ہی وہ ستم گر، نظر ہم سے بیزار آیا
وہ ساون کے قطروں نے غسل دے دیا گلوں کو
مہک چمن میں مچل اٹھی، جو چل کہ سوئے دیار آیا
ساون کی باد و بو میں، جو دل میں اٹھے سب ارماں
کچلنے کو وہ ستم گر، نوید وصال لے کر، کیسا یار آیا؟
کیچڑ جو بارشوں سے جمع ہو ہو کر گند دکھائے
گزرا جو گند کدوں سے، لگا ترے دل کا حصار آیا
گر کنایہ دیتے پہلے، خراج محسن نہیں ہے تیرا
چلے جاتے دیکھ کر کہ، کوئی تیرے حسن کا پرستار آیا