دل کا آزار زمانے پہ عیاں ہو سکتا
لفظ اے کاش تمنا کی زباں ہو سکتا
یہ سمجھتے ہی نہیں درد کا باعث کیا ہے
میرا دل کاش دل چارہ گراں ہو سکتا
دیکھ سکتا کسی خنجر کی لپک کا منظر
کوئی غمخوار قریبِ رگِ جاں ہو سکتا
چاند کی مشعل بیکار بُجھا دی جاتی
رات پر رات کا شدت سے گُماں ہو سکتا
کم نہ ہوتی جو تپش درد کے انگاروں کی
روح میں حوصلہِ ضبطِ فُغاں ہو سکتا
شعر بننے سے خیالات بِکھر جاتے ہیں
کاش جمشید یہ دُکھ یوں ہی بیاں ہو سکتا