لوگ کہتے ہیں کہ جب گھر بدلتے ہیں
تو خیالات بدل جاتے ہیں
میں تو نہیں بدلی اب تک
میرے خیالات کی وادی میں تو وہی ہے
میں رات کی تنہائی میں
ابھی دور بہت دور نکل جاتی ہوں
تحریروں کی صورت ہر روز
ہی کاغذ پہ بکھرنے کیلئے
کبھی محبت بن کر اور کبھی وفا بن کر
ہر رات بکھرتی ہوں
پہلو میں
آنکھوں میں بسے سپنے
ہنساتے ہیں اور کبھی رلاتے ہیں مجھے
قہقہے جو برسیں تو دن بھول جائیں
آنسو جو گریں دامن میںاک
آگ لگا جائیں
دل کی وادی ان رنگوں سے سجی
نا بدلی ہے نا بدلے گی