دامن میں مرے اشک چھپا کیوں نہیں لیتے
بیتاب وحشتوں سے دعا کیوں نہیں لیتے
کب سے ہر ایک سوچ اسی ان کہی میں ہے
دل کی وہ ایک بات سنا کیوں نہیں لیتے
خوشبو بھری ہوا کا بدن ٹوٹ رہا ہے
پھولوں کو ہتھیلی میں چھپا کیوں نہیں لیتے
اک دولت نایاب ہے لمحوں کی قید میں
پلکوں کو ذرا دیر جھکا کیوں نہیں لیتے
کیوں مجھ سے پوچھتے ہو وجوہات جنوں کی
آنکھوں کو آئینے سے ملا کیوں نہیں لیتے
اے ذوق ممکنات تا وقت ردائے حشر
سینے میں اپنی خلد بسا کیوں نہیں لیتے
ہیں اس سے اپنے بیچ زمانوں کے فاصلے
دیوار اناؤں کی گرا کیوں نہیں لیتے
کیا ڈھونڈتے ہو راکھ میں تعبیر کے شعلے
تم مجھ سے مرے خواب چرا کیوں نہیں لیتے
بادل تو چھٹ چکے ہیں خدا خیر کرے گا
تاروں کو اپنے پاس بلا کیوں نہیں لیتے
بس میں ہی نہیں جان گزر گاہ وفا میں
اک سلسلہ سا تم بھی بنا کیوں نہیں لیتے
یہ روٹھنا تو صرف ہے انداز پیار کا
تم شوخ اداؤں سے منا کیوں نہیں لیتے