مروت میں کبھی یاروں کے بہکانے میں جا بیٹھے
ہمیشہ ہم بنا مرضی ہی مے خانے میں جا بیٹھے
سکوں سے سوچنا بھی شہر میں ممکن نہ پایا تو
تمھیں تنہا تصور کرنے ویر ا نے میں جا بیٹھے
فقط دل پر نہیں نوک قلم پر ان کا جا دو ہے
غزل سے مری نکلے تو افسانے میں جا بیٹھے
نہ پوچھو شغل اپنا دور تنہائ میں اب کیا ہے
اگر گھر سے کبھی نکلے تو میخانے میں جا بیٹھے
نہ سمجھے رزق آساں ہو جہاں خطرے بھی ہوتے ہیں
پرندے زد میں صیادوں کی انجانے میں جا بیٹھے
محبت پہلی پہلی تھی نہیں تھا تجربہ کوئی
دوائے درد دل لینے دوا خانے میں جا بیٹھے
حسن کیا ٹھاٹھ تھے دور غلا می میں نوابوں کے
کنیزوں سے ملی فرصت تو مردانے میں جا بیٹھے