کسی بہار کا آسرا ہو نہ ہو
وہ مرا سہارا ہو نہ ہو
یہ کسک طاق نسیاں پہ رکھ دوں
پتہ نہیں اب گزارا ہو نہ ہو
نیند میں یہ مرا چونکنا کیسا
کہیں اس نے پکارا ہو نہ ہو
بچھڑ کر ملا تو اسکے دل میں
دیکھوں گا کوئ شرارا ہو نہ ہو
دوری کا سورج کب گہنائے گا
ملن کا کوئ اشارا ہو نہ ہو
دن کیسے کاٹا ' رات کیونکر بتائ
اس کو کب اندازہ ہو نہ ہو
میں جن کےلئے سلگتا ہوں ناصر
پاس آنا انہیں گوارا ہو نہ ہو