دور رہ کر بھی تو ہوتی ہے ملاقات کبھی
خواب میں ہی سہی ملتا ہے ترا ساتھ کبھی
مجھکو نادان سمجھتے ہیں زمانے والے
ان کو آتی ہے سمجھ میں بھی کوئی بات کبھی ؟
میری الفت نے تو بس اتنی تمنا کی ہے
کاش ہو جائے ترے ساتھ بسر رات کبھی
یاد آتے ہیں وہ گزرے ہوئے دن رات مجھے
بھول پاؤں گی نہ الفت بھرے لمحات کبھی
تم کو معلوم نہیں درد محبت کیا ہے
تم نے جھیلے ہی نہیں ہجر کے صدمات کبھی
آنکھ بھر آتی ہے جب سوچتی ہوں میں سارہ
ایسے تو آئے نہ تھے زیست میں حالات کبھی