مل کر سفر آغاز کیا تھا
منزل ہماری ایک نہیں تھی
رستہ مگر ایک ٹھرا تھا
صدیوں پہلے ہم دونوں نے
تھوڑی دوڑ میرے ساتھ چل کر
منزل کا اسے سراغ ملا تھا
وہ جگہ منزل مان لی میں نے
جہاں سے اس کا ساتھ چھوٹا تھا
یادوں کے چراغ جلا کر وہاں
خوابوں کا محل سجا لیا تھا
اسکا تصور اوڑھنا تھا پہنا
اس کا خیال بچھونا تھا
میں اسکا ہوکر رہ گیا تھا
اور وہ مجھے بھول چکا تھا
میری ساری دعاؤں کا
بسں وہ واحد مرکز بنا تھا
وہ شخص تو میری آنکھوں سے
پہروں ہر روز بہتا تھا
خوشیاں اسکی تقدیر بنی تھی
جانے کتنی صدیوں بعد
پھر اچانک یوں ہوا تھا
جسکو منزل چاہتا تھا اس نے
وہ نظروں کا دھوکا تھا
اس کی وفاؤں کا محل
اندرسے بلکل کھوکھلا تھا
فرشتے جیسا مسیحا اسکا
شیطان کے روپ ڈھل چکا تھا
خود سے بڑھ کر چاہا تھا جسکو
چاہت سے اسکی مکر رہا تھا
ارادا تھا اسے
پھر ایک معجزہ یہ ہوا تھا
وہ میرے پاس لوٹ آیا تھا
میں وہی تھا میں ویسا ہی تھا
مگر وہ وہ نہ رہا تھا
محبت معنی کھو چکی تھی
پیار کے نام سے ڈر جاتا تھا
میں محبت کی جب بات کرتا
تو وہ ہنس کے ٹال جاتا تھا
میں تمہارے ساتھ ہوں جاناں
یہ سن کر وہ چیڑ جاتا تھا
میں کہتا اپنا ہاتھ تھما دو
تو وہ صاف مکر جاتا تھا
جفا کی دھوپ سے جھلس گیا تھا
وفا کا سایہ بھی برا لگتا تھا
وہ روز کسی بہانے سے
بچھڑے دوست کو یاد کرتا تھا
جو کوئی دور رہ کر بھی اس سے
اسکے چار سو پھیلا تھا
اس کے غم پر میں نے اکثر
اپنا دل روتا دیکھا تھا
کہیں میرا ضبط جواب نہ دے
کبھی کبھی یہ ڈر لگتا تھا
کچھ میں بھی تھا اظہار کا سست
کچھ وہ بھی اعتبار گنوا چکا تھا
اسکے شیریں لہجے میں
یہ زہر کس نے گھول دیا تھا
میں ایک بوند چاہت کا پیا سہ
و ہ پیا رکا سمند ر پی چکا تھا
زندگی خو شبو چرا کر اسکے بد ن سے
سو کھے پتے کوئی چھوڑ گیا تھا
وہ دھڑک رہا تھا سنے میں اپنے
اور وہ مجھ سے اگتا گیا تھا
میں اسکو لمحہ لمحہ لکھتا رہا
وہ میر ی شاعری کا عنواں بنا رہا
روح میری اچانک مہک رہی ہے
خواب میں اک دن اس نے چھوا تھا
میرے روکھے ہونٹوں نے ہنسنا
اس سے مل کر سیکھا
نرالی تھی اپنی پریم کہانی
انجام بھی انوکھامل چکاتھا