دوسری بارش
Poet: Junaid Hamza By: Dj Junaid Hamza, dubaiمل کر سفر آغاز کیا تھا
منزل ہماری ایک نہیں تھی
رستہ مگر ایک ٹھرا تھا
صدیوں پہلے ہم دونوں نے
تھوڑی دوڑ میرے ساتھ چل کر
منزل کا اسے سراغ ملا تھا
وہ جگہ منزل مان لی میں نے
جہاں سے اس کا ساتھ چھوٹا تھا
یادوں کے چراغ جلا کر وہاں
خوابوں کا محل سجا لیا تھا
اسکا تصور اوڑھنا تھا پہنا
اس کا خیال بچھونا تھا
میں اسکا ہوکر رہ گیا تھا
اور وہ مجھے بھول چکا تھا
میری ساری دعاؤں کا
بسں وہ واحد مرکز بنا تھا
وہ شخص تو میری آنکھوں سے
پہروں ہر روز بہتا تھا
خوشیاں اسکی تقدیر بنی تھی
جانے کتنی صدیوں بعد
پھر اچانک یوں ہوا تھا
جسکو منزل چاہتا تھا اس نے
وہ نظروں کا دھوکا تھا
اس کی وفاؤں کا محل
اندرسے بلکل کھوکھلا تھا
فرشتے جیسا مسیحا اسکا
شیطان کے روپ ڈھل چکا تھا
خود سے بڑھ کر چاہا تھا جسکو
چاہت سے اسکی مکر رہا تھا
ارادا تھا اسے
پھر ایک معجزہ یہ ہوا تھا
وہ میرے پاس لوٹ آیا تھا
میں وہی تھا میں ویسا ہی تھا
مگر وہ وہ نہ رہا تھا
محبت معنی کھو چکی تھی
پیار کے نام سے ڈر جاتا تھا
میں محبت کی جب بات کرتا
تو وہ ہنس کے ٹال جاتا تھا
میں تمہارے ساتھ ہوں جاناں
یہ سن کر وہ چیڑ جاتا تھا
میں کہتا اپنا ہاتھ تھما دو
تو وہ صاف مکر جاتا تھا
جفا کی دھوپ سے جھلس گیا تھا
وفا کا سایہ بھی برا لگتا تھا
وہ روز کسی بہانے سے
بچھڑے دوست کو یاد کرتا تھا
جو کوئی دور رہ کر بھی اس سے
اسکے چار سو پھیلا تھا
اس کے غم پر میں نے اکثر
اپنا دل روتا دیکھا تھا
کہیں میرا ضبط جواب نہ دے
کبھی کبھی یہ ڈر لگتا تھا
کچھ میں بھی تھا اظہار کا سست
کچھ وہ بھی اعتبار گنوا چکا تھا
اسکے شیریں لہجے میں
یہ زہر کس نے گھول دیا تھا
میں ایک بوند چاہت کا پیا سہ
و ہ پیا رکا سمند ر پی چکا تھا
زندگی خو شبو چرا کر اسکے بد ن سے
سو کھے پتے کوئی چھوڑ گیا تھا
وہ دھڑک رہا تھا سنے میں اپنے
اور وہ مجھ سے اگتا گیا تھا
میں اسکو لمحہ لمحہ لکھتا رہا
وہ میر ی شاعری کا عنواں بنا رہا
روح میری اچانک مہک رہی ہے
خواب میں اک دن اس نے چھوا تھا
میرے روکھے ہونٹوں نے ہنسنا
اس سے مل کر سیکھا
نرالی تھی اپنی پریم کہانی
انجام بھی انوکھامل چکاتھا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل








