دَرد دے کر دَوا نہیں کرتا
ظُلم ایسا خُدا نہیں کرتا
چاند تارے بھی توڑ کر لا دو
اِنس پِھر بھی وَفا نہیں کرتا
یہ بھی محبوب کی عنایت ہے
ہِجر سے جو رِہا نہیں کرتا
اب کے سنگدِل وہ یوں ہُوا ہے کہ
خواب میں بھی مِلا نہیں کرتا
یُوں وَڈیروں کا خوف چھایا ہے
کوئ مَنگتا صَدا نہیں کرتا
یار نے خُوب ظُلم ڈھاۓ ہیں
پِھر بھی دِل ہے گِلا نہیں کرتا
حُسن تو بےقصُور ہے باقرؔ
اِنس ہے جو وَفا نہیں کرتا