دکھ کسی کا جانے بنا کوئ یہا ں سمجھتا نہیں
دار و درمن بھی بنا درد کے یہاں ملتا نہیں
خاموش رہے گر سمندر تو طوفاں بھی اٹھتا نہیں
موج زن بہ جائے سفینہ تو کوئ نشاں ملتا نہیں
دکھ کے دریا میں کوئ اس پار تو کوئ اس پار
دکھ بانٹنے کے لئے پردیس میں کوئ اپنا ملتا نہیں
ڈوبنے والے کو یوں تو تنکے کا سہارا بھی بہت
مگر اے درخشندے کبھی سمندر کا کنارہ بھی ملتا نہیں