دھڑکنوں کو میری دیکھو آج نادانی ہوئی
میرے دل کی دھڑکنوں میں دل پیشمانی ہوئی
اب نہیں ہے حوصلہ میرے وجودِ خاک میں
بے بسی پھر آج چہرے سے پریشانی ہوئی
یاد وہ آتی رہی عہدِ وفا کی داستاں
جب دیا بجھنے لگا تھا میں یہ بیگانی ہوئی
بڑھتے بڑھتے بڑھ گئے جب ضبط غم کے فاصلے
یاد تیری جب بھی آئی میں بھی حیرانی ہوئی
تیری سنگت میں گزارے دن سبھی بیکار سے
دیکھتے ہی رہ گئے شب بھر یہ ویرانی ہوئی
اب پیارے لگ رہے ہیں درد کے موسم سبھی
تجھ کو پانے کی یہ خواہش میری آسانی ہوئی
درمیاں کیا کیا دلوں میں حادثے ہوتے رہے
تیری خاطر تجھ پہ وشمہ پھر سے قربانی ہوئی