دیکھتے ہیں راہ میں رَہ گذر مل جائے
یوں شاید زندگی کو کوئی سفر مل جائے
محفل میں بہکے تو اُسے ہی مانگیں گے
ذرا رکیئے اپنی مۂ کو اثر مل جائے
بے تاثیر حکم کی عدم توجہی نہیں کی
یہ تم نے چاہا تھا کہ مجھے ہجر مل جائے
اس آندھیوں میں تتلی کتنی بھٹکے گی
اپنی دعا کہتی ہے کہ اِسے شجر مل جائے
وہ تو پھر جینے کا تعزیر ہی نہ کرے
جسے اک بار عاشقی کا ہنر مل جائے
دکھ کی دھوپ اور کئی گریزاں منزلیں
سنتوشؔ تیرے حسرت کو کہں سحر مل جائے