دیکھو کب سے تمہارے انتظار میں بیٹھی ہوں
کتنے دل میں خمار لیے بیٹھی ہوں
خبر نا ہوئی راہ دیکھتے کب شام ہو گئی
میں صبح سے دل بیقرار لیے بیٹھی ہوں
ہواؤں کی دستک نے آج بہت ستایا مجھے
میں جھیل آنکھوں کو اشک بار لیے بیٹھی ہوں
وہ آخری سوال جو پوچھا تھا تم نے
ُاس کے جواب میں لفظوں کی قطار لیے بیٹھی ہوں
اب آنے میں اتنا وقت کیوں لگا رہے ہو
تمہارے آمد کا سن کر پھولوں کا ہار لیے بیٹھی ہوں
وہ ُسرخ ڈوپٹہ جو تحفے میں بھیجا تھا تم نے
سولہ سنگھار کر کے ُاسے سر پر لیے بیٹھی ہوں
تب آؤ گے بھلا جب نیند آ جائی گئی
گلابی ہونٹوں پر نیند کے لیے انکار لیے بیٹھی ہوں
اجنبی شہر میں میری خاموشیاں کون سمجھے گا
میں خاموش دل میں کتنا پیار لیے بیٹھی ہوں