ذکر نو بہار چلے
Poet: Nasir Rizvi By: uzma ahmad, Lahoreرہیں عشق رہے زندگی گزار چلے
یہ ایک قرض تھا ہم پہ جو ہم اتار چلے
طلب ہوئی تو ہم ہی لے کے نقد جاں پہنچے
کہیں رکے ہی نہیں پھر جو ایک بار چلے
نگاہ یار میں ہی جب معتبر ٹھہرے
تو شہر یار سے ہم ہو کے شرمسار چلے
قفس میں بھی جو رہے تو رہے چمن کی طرح
خزاں بھی تھی تو کئے ذکر نو بہار چلے
کچھ اور چاہا نہ ہم نے دل و نظر کے سوا
ذرا سی بات تھی قصے مگر ہزار چلے
ٹھہر سکے جو کبھی وہ تو وقت بھی ٹھہرے
نہ بار بار رکے اور نہ بار بار چلے
More Love / Romantic Poetry






