رہیں عشق رہے زندگی گزار چلے
یہ ایک قرض تھا ہم پہ جو ہم اتار چلے
طلب ہوئی تو ہم ہی لے کے نقد جاں پہنچے
کہیں رکے ہی نہیں پھر جو ایک بار چلے
نگاہ یار میں ہی جب معتبر ٹھہرے
تو شہر یار سے ہم ہو کے شرمسار چلے
قفس میں بھی جو رہے تو رہے چمن کی طرح
خزاں بھی تھی تو کئے ذکر نو بہار چلے
کچھ اور چاہا نہ ہم نے دل و نظر کے سوا
ذرا سی بات تھی قصے مگر ہزار چلے
ٹھہر سکے جو کبھی وہ تو وقت بھی ٹھہرے
نہ بار بار رکے اور نہ بار بار چلے