راتوں کے اندھیروں میں دل بن کے دھڑکتا ہے
اک شخص میرے اندر جیتا ہے نہ مرتا ہے
خاموش سی راہوں کا اک عام تماشے میں
خاموش تماشائی خاموشی سے لڑتا ہے
چاہت بھی مقدس ہے قربت بھی مقدس ہے
پر ریت کی دیواریں ہر کوئی گراتا ہے
کب تک تو سنبھالے گا مٹی کے گھروندوں کو
طوفان میں تنکوں کو یہاں کون بچاتا ہے
میں ٹوٹ گیا ساغر معلوم نہیں ساغر
پر شہر خراباں پر پتھر تو برستا ہے