رات گزرے گی تو رکھ لیں گے بھرم آج کے بعد
ھم نہ آئیں گے کبھی شہر میں تیرے آج کے بعد
وہ تیرے شعروں اور غزلوں میں میرا کھو سا جانا
اب نہ پڑھ پائیں گے دیوان تیرے آج کے بعد
مجھ کو لفظوں میں سجا کے جو کبھی لکھے تھے
ھونٹ وہ گیت نہ گائیں گے تیرے آج کے بعد
شام آئیگی تو پھر چاند بھی بتلائے گا ہمیں
وہ نہ جھانکے گا کبھی گھر میں تیرے آج کے بعد
تیرے چہرے پہ میری نظروں نے جو باندھا تھا حصار
رخ روشن پہ نہ ھو گی وہ سحر تیرے آج کے بعد