راحت قلب و جاں اُڑانے کو
ہم ملے ہیں بھرے زمانے کو
رقص ماہتاب ہم نے دیکھا ہے
دل کی دھڑکن کے آزمانے کو
اک زمانہ ہوا ہے خانہ خراب
ان کی نظروں میں گھر بسانے کو
دل کی دھڑکن سے پائلوں کی صدا
روز اُٹھتی ہے دل دُکھانے کو
سب کی نظریں ہیں ان کے چہرے پر
ہم بچے ہیں نظر جھکانے کو
کیا ہے زنجیر زلف کا عالم
ہم ہی جکڑے ہیں پیچ کھانے کو
اب کے تعظیم کو نہیں جاناں
سر جھکایا ہے سر کٹانے کو
اس آنا ہی گر نہیں تو فدا
آگ لگ جائے آشیانے کو