راستے میں ہم سفر ساتھ چھوڑ گئے
وہ مجھے ہی دیکھ کر ساتھ چھوڑ گئے
میں اکیلے آیا ہوں وہ نہیں آئے
وہ چلے ہیں اپنے گھر ساتھ چھوڑ گئے
جن پہ تھا بھروسہ اپنے نہیں وہ رہے
میرے اپنے کاری گر ساتھ چھوڑ گئے
طنطنہ دکھا رہے ہیں وہ آئے نہیں
ہوگئے ہیں دربدر ساتھ چھوڑ گئے
کچھ نہیں رہا مرے پاس دینے کو
ہوگئے یوں منتشر ساتھ چھوڑ گئے
ساتھ میرے وہ رہے پھر ہوا ایسا
گھومے ہیں ادھر ادھر ساتھ چھوڑ گئے
چلتے ہیں کہیں یہاں دل نہیں لگتا
کرتے وہ اگر مگر ساتھ چھوڑ گئے
کہتے تھے یہی نہیں ساتھ چھوڑیں گے
ہم رہیں گے عمر بھر ساتھ چھوڑ گئے
زیست کا پیا چلے گا نہیں شہزاد
قیمتی تھے جو شجر ساتھ چھوڑ گئے