راہ دل سے میں تیرے نقش مٹا بھی نہ سکوں
Poet: ڈاکٹر آفتاب رانجھا By: ڈاکٹر آفتاب رانجھا, Lahoreراہ دل سے میں تیرے نقش مٹا بھی نہ سکوں
 اتنا مشکل تو نہیں تجھکو بھلا بھی نہ سکوں 
 
 مجھکو وحشت ہی سہی پھر بھی یہ کیا مشکل ہے 
 داستان غم دل تجھکو سنا بھی نہ سکوں
 
 بیخودی میں کبھی صحرا میں نکل جاتا ہوں
 کیا غضب ہے کہ وہاں پھول کھلا بھی نہ سکوں 
 
 تو جو مل جائے اگر خون جگر بھی دے دوں
 کیسے ممکن ہے کہ میں جان لٹا بھی نہ سکوں 
 
 میں لئے پھرتا ہوں اوروں کی بلائیں سر پر
 بوجھ اتنا بھی نہیں جسکو اٹھا بھی نہ سکوں
 
 اتنا پابند ضوابط تو نہیں ہوں لیکن 
 پھر سے اک بار ترے شہر میں آ بھی نہ سکوں
 
 ساقیا تو مجھے تڑپانے کی ضد چھوڑ بھی دے
 جام غم سر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں 
 
 اے نصیب غم عشاق یہ کیا ماجرا ہے 
 غیر کے سامنے کیوں اسکو بلا بھی نہ سکوں 
 
 تم نے دیوار بنائی جو غم دوراں کی
 حد فاصل تو نہیں جس کو ہٹا بھی نہ سکوں
 
 اے مرے شوق جنوں تم بھی تو حد کرتے ہو
 تیرے کہنے پہ میں اس شہر سے جا بھی نہ سکوں 
 
 ایک آہٹ کے بھروسے پہ جیوں گا کب تک
 اتنا کم ظرف نہیں غم کو چھپا بھی نہ سکوں 
 
 تاب گفتار بھی کھو جانے کا ڈر ہے 'برہم' 
 بات کرنے کے لیے ہونٹ ہلا بھی نہ سکوں
  






