بات کب کی ختم ہوئی بس اک ربط وابستہ ہے
کہ میرے گھر کو جاتا اٗسکی گلی سے رستہ ہے
احباب بھی خفا ہیں اب تو اٗسے لے کر ہم سے
پر کیا کروں دلِ نادان کی حالت بڑی خستہ ہے
زرا پوچھا ہوتا تونے اے ظالم سہیلیوں سے اپنی
کیسا دکھتا ہے جسکے کاندھے پے تیرا بستہ ہے
یوں تو کئی بار کہہ چکا ہوں دوستوں سے اپنے
کہ اب نہیں بلاؤں گا کیا میرا ضمیر اتنا سستا ہے
مزاق اڑاتے ہیں کم بخت مل کے محفل میں میرا
کون سمجھائے عشق کا سانپ ایسے ہی ڈستا ہے
حازق کیا دن تھے وہ زرا یاد نہیں مجھے اب تو
پر آج بھی میرے اداس چہرے میں وہ ہنستا ہے
معمول تھوڑی تھا جو قصہ پٗرانا کردوں خود میں
جس قلب کو میں نے نہیں دیکھا وہ وہاں بستا ہے