رسوائی دل کا کچھ ملال باقی ہے
دل میں کسی کا خیال باقی ہے
افسردہ ہو کیوں مری حالت زار پر
ابھی بہت کچھ سہنے کا حال باقی ہے
کوئی دیکھتا ہی نہیں خلوص و وفا
نگاہ میں سب کے کیا مال باقی ہے
افسانہ محبت تو سارا سنا تم نے
میرے لب پہ تھا جو سوال باقی ہے
دھوم مچادھوں گا بزم میں آج
ابھی سوز جگر کا کمال باقی ہے
نامکمل ہیں ایاز تیرے بغیر
جسم اور روح کا وصال باقی ہے