آئینے اور پتھر میں، رشتہ بہت قریب کا ہے
گدلا آنسو، چمکتا موتی، فرق سارا نصیب کا ہے
کانٹے رکھ کے پاس اپنے، پھول لوٹا دیتا ہے وہ
مائل جانوں یا گریزاں، معمہ خاصا عجیب سا ہے
نظر پڑتے ہی اس پہ، یاد آجاتا ہوں میں
کیا بتاﺅں احسان کتنا، مجھ پہ میرے رقیب کا ہے
دھڑکنیں تھم ہی چکی تھیں، دھیرے سے کہا لو آگئے
لوٹ کے آنے میں میرے بس ہاتھ اتنا طبیب کا ہے
تجھے بھول کے ثاقب، وہ اپنا لے کسی اور کا نام
لاکھ ناممکن سہی، خیال کتنا مہیب سا ہے