روح میں احساس جلتا ہے
آنکھوں میں خواب جلتا ہے
اتنا دھک رھا ہے ساغر
پیوٴں تو دھن جلتا ہے
دور تک پھیلا ہے صحرا
وہ دور سیراب جلتا ہے
اداسی یوں لپٹی رہتی ہے
جیسے بخار میں بیمار جلتا ہے
یہ دل یہ عشق یہ فراق
شب_ تنہائی کا خمار جلتا ہے
شمع کی بے خواب آنکھوں میں
کسی کا انتظار جلتا ہے
حجاب ڈالیےپر ذرا خیال رہے
گرمیٴ حسن سے نقاب جلتا ہے