روز اول سے ہیں بیکار میں غم سے آگے
تیرے ہونٹوں پہ کہاں پیار و ستم سے آگے
اب بھی زندہ ہوں تری حسرتِ دیدار لئے
مرے سینے میں سلگتے ہے نعم سے آگے
تیرے بن گزری ہے یوں میری جوانی تنہا
سانپ بن کر مجھے ڈستے رہے نم سے آگے
میں نے رکھے تھے کسی آنکھ میں کچھ راز یہاں
تب سے خوابیدہ ہیں ارمان، صنم سے آگے
جس کے کھلنے سے عیاں ہو گا مقدر اپنا
ایسی تقدیر پہ پہنچے ہے عدم سے آگے
تیری خوشبو سے مہکتی ہیں گلابی کلیاں
تیری یادوں سے مہکتے ہے کرم سے آگے
مال و دولت نہ ہی عہدے کی ہے حسرت وشمہ
کام آئیں گے کسی روز عجم سے آگے