روز کہتا تھا آج مرنا ہے
شرم آتی ہے میں مرا ہی نہیں
سب رھے غرق اپنے کاموں میں
میں بجز طنز کچھ کیا ہی نہیں
جانے کس کو رہی تلاش مری
میں بھی چھپتا رہا، ملا ہی نہیں
ہر کوئی اجنبی تھا میرے لیے
دکھ کہ اپنا بھی میں ہوا ہی نہیں
سب نے کوشش تو کی بہت لیکن
بھاگ میں تو سدھرنا تھا ہی نہیں
کتنا مایوس ہوں، کیا بتلاؤں
اب تباہی کو کچھ بچا ہی نہیں
اب کسے بھولے سے کریں ہم یاد
نہ میاں، اب کوئی رہا ہی نہیں
اِس جہاں میں خطا سے بھیجا گیا
مگر کیونکر مجھے پتا ہی نہیں
ٹل گئی آس کی بلا جب سے
تب یہ جانا کوئی مرا ہی نہیں