السلام اے پیکر حسن و محبت السلام
السلام اے غنچہء بستان عشرت السلام
ہو مبارک تجھ کو تیری ازدواجی زندگی
اور ہو اس زندگی کو مستقل پائندگی
ہاں مگر یہ تو بتا مجھ کو عروس دلنواز
اب بھی باقی ہیں تیرے سینہ میں وہ سوز و گداز
اب بھی کیا وہ چاندنی راتیں جگاتی ہیں تجھے
اب بھی کیا میری تمنائیں رلاتی ہیں تجھے
اب بھی کیا پہلی سی ہے خاموشیوں سے سازباز
کیا ابھی تک ہے میری جانب نگاہ امتیاز
اب بھی کیا شغل و وظائف میں وہی ہے انہماک
اب بھی دل کہتا ہے کر ڈالوں گریباں چاک چاک
اب بھی کیا ہوتا ہے پہلے کی طرح الہام سا
میں نے سوچا اور تیرے دل پہ القا ہو گیا
اب بھی ہوتی ہے تصور سے میرے کیا گفتگو
مشغلہ آنکھوں کا کیا اب بھی ہے میری جستجو
اب بھی ہیں بے کیف وہ انداز صبح و شام کیا
اب بھی ہے لب پہ خدا کے ساتھ میرا نام کیا
اب بھی ہوتا ہے ستاروں کی چمک سے اختلاج
کیا عزیزوں میں ہے تو اب بھی سزاوار علاج
اب بھی کیا زلفیں پریشاں ہیں اسی انداز سے
اب بھی کیا تو چونک پڑتی ہے میری آواز سے
اب بھی ہوعتا ہے تجھے میری محبت کا خیال
اب بھی دیتی ہے کبھی نو میری ہستی کی مثال
اب بھی کیا رہتا ہے تجھ کو میرے خط کا انتظار
اب بھی کیا دنیائے الفت کے وہی ہیں کاروبار
کیا وہ پھر چھپ چھپ کے ملنے کا زمانہ آئیگا
کیا زباں پر پھر وہی بھولا فسانہ آئیگا
اب بھی میری یاد میں کیا شعر فرماتی ہے تو
اور اس عالم میں عالم سے گزر جاتی ہے تو
میری الجھن کو خدا کے واسطے سلجھا بھی دے
میری جو قیمت لگائی ہے مجھے بتلا بھی دے
تیری تسکین پر ہے یہ میرا مدار زندگی
بےقراری کے بھنور میں ہے فرار زندگی
کیسے ممکن ہے یہ اے شمع شبستان جمال
ایسی رنگیں ساعتوں میں شور کا آئے خیال