آنسوؤں کے چراغ میں دل اپنا ڈبویا ہے رات بھر
رو رو کے ہم نے اشکوں سے تکیہ بھگویا ہے رات بھر
اسکو میری بے تابیوں کی خبر ناں ہو سکی
تڑپا کے مجھ کو خود سکوں سے سویا ہے رات بھر
دیکھ کر اپنا چہرہ آئینے میں وہ حیران رہ گیا
مل ناں سکا وہ عکس اسے جو کھویا ہے رات بھر
اپنے ہی کھودے گڑھے میں وہ گرتا چلا گیا
ملا ہے اسے پھل وہی جو بویا ہے رات بھر
بس وہ ایک شخص تھا جسے جاذب کے مرنے کا تھا غم
جلا کے اسکی قبر پے دیا جو رویا ہے رات بھر