رکھا جو آپ نے تھا ہماری کتاب میں
خوشبو بسی ہوئی ہے ابھی اس گلاب میں
پی لی جو ایک بار تمہاری نگاہ سے
ایسا نشہ نہ پایا کسی بھی شراب میں
دیکھو کہیں نہ ہم بہک جائیں پی کے مے
ساقی ہمیں پلاؤ زرا تم حساب میں
تاریخ بدلی ہے نہ بدل سکتی ہے صاحب
ترمیم جتنی چاہے کرو تم نصاب میں
اب تو وفائیں سوہنی سی اس دور میں کہاں؟
ڈوبی جو اپنے عشق کی خاطر چناب میں
اپنوں سے دور رہ کے کسی طرح کٹ گئی
باقی جو زندگی ہے نہ گزرے عذاب میں
تنظیم مٹ نہ پائیں گی یہ دوریاں کبھی
مر نہ جاؤ تم کہیں اس اضطراب میں