کیوں محبت سے دل لگائی ہے
خود کو کیوں رات دن جلائی ہے
زندگی بے وفا ہے مان بھی لے
یہ تو انساں کو آزمائی ہے
روح اور جسم کی تمازت میں
زندگی رنج وغم اٹھائی ہے
سرفروشی کی داستانوں میں
زندگی زندگی کو کھائی ہے
اس نے وعدہ کیا تھا آنے کا
آج بھی انتظار آئی ہے
عاشقوں کی عجب ہے بزم جہاں
خود سے مایوس ہوں جدائی ہے
مجھ کو رونا تھا حال دل پہ مگر
میری قسمت پہ دل دہائی ہے
ایسی باتوں کو راز وہ ہی رکھیں
حسرتیں راکھ ہو برائی ہے
رحمتوں پر یقین ہےمیرا
دل کو میرے قرار پائی ہے
قلب وشمہ کی بے سبب دھڑکن
رات دن ہی اسے ستائی ہے