زندگی میں تنہائی ہے اداسی ہے
آنکھ تیری دید کی پیاسی ہے
تھوڑی سی خوشیاں ڈھیروں غم
جینے کےلیے یہ سب کافی ہے
فتنہ فساد غم دوراں کہ پیچ وخم
یہ سب زیست میں اضافی ہے
میں ہر روز کوئی نئی بات سیکھتا ہوں
انسان کودنیا بہت کچھ سکھاتی ہے
ہم کسی بزم سخن میں چلے جاہیں
محفل لوٹنے کہ لیے ہمارا نام کافی ہے