زندگی چند خیالوں میں مد ہو ش تھی
زند گی پھر حسیں اور بے دو ش تھی
ہر کسی کو گلے سے لگا تا تھا میں
اور سبھی کو محبت سکھا تا تھا میں
زند گی میر ی پر کیف و مسحور تھی
عشق و د ل لگی مجھ سے کو سوں دورتھی
عشق سے دور رکھتا تھا ہر ایک کو
دل لگی سے ہٹا تا تھا ہر ایک کو
مگر تم نےشا ید سنی ہو پہیلی
محبت کی بازی جس نے بھی کھیلی
نہ اس کا رہا کوئی ساتھی نہ بیلی
دکھوں کی چلی اس کے ساتھ ریلی
آ ہ پہ بھی کچھ ایسی قیامت تھی ٹو ٹی
کہ سب ناطے رشتے اور دنیا تھی رو ٹھی
محبت کا آغاز لب سے ہوا تھا
انجام دکھ غم کی شب سے ہوا تھا
کچھ وہ بھی کتراتے تھے حالات سے
کچھ ہم بھی گبھرا تے تھے جز با ت سے
اب تو گن گن کے تاروں کو کٹتی ہیں راتیں
اور رلا جا تی ہیں اس کی وفا والی باتیں
اب تو مو سم بھی دل کو لبھا تے نہں
باغ چاھت کا دل میں لگاتے نہیں
اب تو اک آس ہے ذات باری تعا لی
بچالے سبھی کو بلا سے با ری تعا لی