زندگی کا رنگ اچھا تو ہے لیکن عارضی ہے
چار دن کی زندگی میں آج کا دن آخری ہے
ایک جب منزل ہو تو پھر چال بھی تو ایک ہی ہو
بس یہی سیکھا ہے دنیا نے بہتر عاجزی ہے
چھا رہی ہے اک خماری تو یہ کیسی سرکشی ہے
یاد میں تیری وہی کیوں منفرد سی تازگی ہے
عشق کا جو مسئلہ ہے مسئلہ وہ عالمی ہے
تو مقدر میں نہیں تو اس میں کوئی بہتری ہے
ایک مدت ہو گئی ہے رابطہ بھی ملتوی ہے
آنکھ میں روشن کسی کی دی ہوئی اک روشنی ہے