زیست گھائل ادھوری رہ گئی ہے
موت حائل ادھوری رہ گئی ہے
تیرا ملنا ضروری ہو گیا ہے
میری اِک غزل ادھوری رہ گئی ہے
اس کہانی کو کوئی موڑ تو دے
ساری منزل ادھوری رہ گئی ہے
تم مصوّر ہو تم تو جانتے ہو
کہ میری شکل ادھوری رہ گئی ہے
اب ہجر کیسے مکمل ہو بھلا
محبت حاصل ادھوری رہ گئی ہے
اکثر ملتا ہوں گزرے لمحوں سے
تُو ان میں شامل ادھوری رہ گئی ہے